Read in English  
       
Race Report

حیدرآباد: اے سی بی حکام نے فارمولا ای کار ریس کیس میں فائنل رپورٹ داخل کرتے ہوئے فیصلوں، منظوریوں اور ادائیگیوں سے متعلق اہم نکات پیش کیے۔ رپورٹ میں سابق وزیر کے ٹی راما راؤ کو A1، آئی اے ایس افسر ارویند کو A2، بی ایل این ریڈی کو A3 اور ایف ای او نمائندوں کو A4 اور A5 کے طور پر درج کیا گیا۔ حکام کے مطابق ریس منعقد کرنے کا فیصلہ صرف کے ٹی آر نے کیا، جبکہ مکمل سرکاری منظوریوں کے بغیر ہی عمل آگے بڑھایا گیا۔

رپورٹ میں درج ہے کہ ارویند نے گورنر کی منظوری کے بغیر دو معاہدوں پر دستخط کیے۔ ایم اے اینڈ یو ڈی کی جانب سے کوئی باضابطہ اجازت جاری نہیں ہوئی اور وزیر اعلیٰ، چیف سکریٹری اور وزیر خزانہ جیسے سینئر رہنماؤں کو پیشگی معلومات نہیں دی گئیں۔ حکام کے مطابق انتخابی ضابطۂ اخلاق کے دوران بھی معاہدے اور ادائیگیاں جاری رہیں، جنہیں خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ ریاست نے سیزن 9 کے لیے 20 کروڑ خرچ کیے، حالانکہ سہ فریقی معاہدے میں یہ لاگت شامل نہیں تھی۔

منظوریوں اور ادائیگیوں میں بڑے خلا | Race Report

تفتیش کے مطابق سہ فریقی معاہدے میں ایچ ایم ڈی اے شامل ہی نہیں تھی، اس کے باوجود ارویند کمار اور بی ایل این ریڈی نے ایف ای او کو 46 کروڑ کی ادائیگی کی منظوری دی۔ حکام کا کہنا ہے کہ بعد میں ایچ ایم ڈی اے نے سیزن 10 کے لیے 54.88 کروڑ خرچ کیے، جبکہ آر بی آئی ضابطوں کی خلاف ورزی سے ادارے پر مزید 8 کروڑ کا بوجھ پڑا۔

30 اکتوبر 2023 کو کیے گئے دوسرے معاہدے نے ریاست کی ذمہ داری تقریباً 600 کروڑ تک پہنچا دی، جو سیزن 10، 11 اور 12 کے اخراجات سے جڑی ہے۔ حکام کے مطابق اگر ایچ ایم ڈی اے شامل نہ ہوتی تو یہ ذمہ داری Ace NXT Gen پر عائد ہوتی۔ انہوں نے بتایا کہ کے ٹی آر نے نیلسن رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے 700 کروڑ سرمایہ کاری کا دعویٰ کیا، مگر کوئی سرکاری دستاویز اس کی تصدیق نہیں کرتی۔ نیلسن نے بھی تفتیش میں تعاون نہیں کیا۔ مزید انکشافات تفتیش کے آگے بڑھنے پر متوقع ہیں۔

تفتیش کی رفتار تیز، مزید سوالات متوقع | Race Report

تلنگانہ کے گورنر جِشنو دیو ورما کی جانب سے کے ٹی آر سے پوچھ گچھ کی منظوری کے بعد تفتیش میں تیزی آئی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ منظوری کیس کو آگے بڑھانے میں اہم ثابت ہوئی۔ متعلقہ ایجنسیاں اب ادائیگیوں، معاہدوں اور مالی ذمہ داریوں سے جڑے مزید حقائق کی جانچ میں مصروف ہیں۔

سیاسی حلقوں میں اس رپورٹ کے بعد نئی بحث نے جنم لیا ہے، جبکہ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ معاملہ آئندہ دنوں میں مزید سنگین موڑ اختیار کر سکتا ہے۔ انتظامی فیصلوں اور مالیاتی شفافیت پر زور دیتے ہوئے حکام نے اشارہ دیا کہ تفتیش کا دائرہ مزید وسیع ہو سکتا ہے۔